امام ابو حنیفہ کی بات مانتے ہیں آپ؟
الجواب:
فان تنازعتم فی شی ء فردوہ الی اﷲ والرسول ۔۔۔
(النساء: ۵۹)
ایک شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ جن کتابوں کی وجہ سے اکابرین دیوبند،بریلوی،اہلحدیث،احمد بن حنبل اور ابن قیم وغیرہ غلط قرار پاتے ہیں،وہ سب فاسقین اور اندھے عقیدت مندوں کی تحریر کردہ ہیں،ان کی اپنی نہیں اور فاسق کی خبر کو قرآن ناقابل قبول قرار دیتا ہے جیسا کہ سورۃ الحجرات میں ارشاد ہے کہ اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو۔۔۔ تو پھر اس کے مطابق ان کتابوں کو کیسے صحیح قرار دیا جا سکتا ہے اور جب آسمانی کتابوں میں تحریف ہو چکی ہے تو پھر ان کتابوں میں تحریف کیا مشکل ہے؟
الجواب:
دوسری چیز خود ’’خبر‘‘ ہے جو کتابوں کی شکل میں آئی ہے۔اس خبر کو سب نے مانا ہے۔جیسا کہ ’’کشف المحجوب ‘ ‘ ہے۔سب یہی کہتے ہیں کہ یہ کتاب علی ہجویری عرف داتا گنج بخش صاحب کی ہے۔وہ بڑے اﷲ والے تھے،انہوں نے بڑی توحید بیان کی ہے۔ یا انفاس العارفین ہے،ساری دنیا جانتی اور مانتی ہے کہ یہ شاہ ولی اﷲ صاحب کی کتاب ہے اور سب کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی اس کتاب میں بہت اچھی اچھی باتیں لکھی ہیں۔یا احمد بن حنبل کا اپنا خط ہے۔اسے خبر کہتے ہیں۔ان کتابوں کے شاہد نہ ہم ہیں اور نہ آج کی دنیا والے۔جب ان کتابوں کی شکل میں خبر آئی تو ساری دنیا نے تصدیق کی کہ ہاں! یہ فلاں بزرگ کی کتاب ہے ،یہ فلاں بزرگ کی کتاب اور یہ فلاں امام کا خط ہے۔اور اسی خبر کی بنیا د پر کہا گیا کہ یہ بڑے بزرگ ہیں،ولی اﷲ ہیں،امام ہیں۔چنانچہ انہوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کو مانا گیا ہے یہاں تک کہ اس پر عقیدے بنائے گئے ہیں۔چاہے و ہ کتاب و سنت کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔
تیسری چیز استنباط ہوتی ہے۔ہم نے کہا بالکل ٹھیک ہے یہ واقعی انہی کی کتابیں ہیں لیکن جس طرح تم نے ان کتابوں سے استنباط کیا اور کہا کہ یہ اولیاء اﷲ ہیں،اسی طرح ہم نے بھی ان کتابوں کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھ کر کہا کہ یہ سب قرآن و حدیث کے خلاف لکھنے والے اور غلط لوگ تھے۔
اب ان میں سے کسی بھی امام یا ولی کی کتاب ہو،چاہے اس کو مرے ہوئے چھ سو برس کا عرصہ گزر چکا ہو،نو سو برس ہو گئے ہوں یا گیارہ سور برس گزر گئے ہوں،ساری دنیا اب تک مانتی چلی آئی ہے کہ یہ کتابیں بلا شک و شبہ انہی بزرگوں کی ہیں۔لیکن جب انہی کتابوں میں لکھے گئے مضامین کی بنیاد پر ان بزرگوں پر انگلی اٹھائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ ان کی کتابیں نہیں ہیں۔کیا ستم ظریفی ہے یہ؟ چلیے یہ ان کی کتابیں نہ سہی۔تم ذرا وہ کتابیں تو لے آؤ جو ان کی اپنی ہوں اور ان میں خالص قرآن و حدیث کے مطابق باتیں لکھی گئی ہوں،جن کی بنیاد پر انہیں تم ولی اﷲ کہتے ہو،تو چپ ہو جاتے ہیں۔حقیقت میں دین حق کا راستہ روکنے والے یہی لوگ ہیں۔
کیا زندہ پیروں یاگزرے ہوئے انبیاء،صدقین،شہداء اور صالحین یا کسی اور کو پکاریں تو یہ حاجت روائی،مشکل کشائی اور فریاد رسی کرتے ہیں ؟
الجواب:
کیا یہ درست ہے کہ آدم علیہ السلام کی دعا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے قبول ہوئی؟
الجواب:
دیوبندی بھی توحید کی بات کرتے ہیں۔ ان کے اندر ایک تبلیغی جماعت ہے جو پوری دنیا کے اندر کام کر رہی ہے ،آپ کا ان سے کیا اختلاف ہے۔ان کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟
الجواب:
پہلی بات جو آپ نے دیو بندیوں کے بارے میں پوچھا ہے تو ان کا معاملہ یہ ہے کہ حسام الحرمین نامی ایک کتاب احمد رضا خان بریلوی نے دیو بندیوں کے خلاف لکھی اور مختلف علما سے تائیدی فتوے لیے۔اسی میں اس نے یہ کہا کہ دیکھیے یہ دیوبندی نہیں مانتے کہ اﷲ کے نبی قبر میں زندہ ہیں اور ان کی یہ زندگی دنیاوی زندگی ہے برزخی نہیں،جو سب کو حاصل ہے۔اس کے جواب میں خلیل احمد صاحب اور اس زمانے کے سبھی بڑوں نے چاہے وہ کفایت اﷲ ہوں یا محمود الحسن سب نے مل کر اپنے عقائد واضح کیے کہ یہ غلط کہتا ہے کہ ہم اﷲ کے نبی کو قبر میں زندہ نہیں مانتے۔۔۔ ہم صرف یہی نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں زندہ مانتے ہیں بلکہ یہ بھی مانتے ہیں کہ آپ کی یہ زندگی برزخی نہیں دنیاوی ہے۔ پھر احمد رضا خان کی اس بات کے مقابلے میں کہ یہ قبر نبوی کی تحقیر کرتے ہیں،انہوں نے واضح کیا کہ یہ بھی غلط بات ہم سے منسوب کی گئی ہے۔ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ اﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے جو زمین مس کر رہی ہے وہ خانہ کعبہ بلکہ اس سے بڑھ کر عرش و کرسی سے بھی زیادہ افضل ہے ۔ یہ عقیدہ بنایا انہوں نے۔ تیسرا عقیدہ انہوں نے یہ بنایا جس میں اس بات کی تردید کی کہ ہم اولیاء اور انبیاء کے وسیلے کے قائل نہیں ہیں اور کہا کہ ہم اولیاء اور انبیاء کی قبروں سے استفادہ کے بھی قائل ہیں۔ پھر انہوں نے یہ عقیدہ بنایا کہ ہم بالکل اس بات کو مانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر امت کے اعمال پیش ہوتے ہیں اور درود سلام پہنچائے جاتے ہیں۔اسی طرح بزرگوں کی قبروں سے فیض پہنچنے کا اعتراف کیا اور دوسرے عقائد بنائے۔جو قرآن و حدیث کے خلاف اور بریلویوں کے عقائد کے مطابق ہیں۔جن کو تفصیل کے ساتھ ان کے عقائد کی کتاب ’المھند علی المفند‘مؤ لفہ خلیل احمد سہارنپوری، میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہی حال دیوبند کی ایک شاخ تبلیغی جماعت کا ہے۔بلکہ یہ ان سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ ان کے مطابق اﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہی نہیں بلکہ جہاں چاہیں پہنچ جاتے ہیں۔قبر کی زندگی کا یہ واقعہ بیان کیا ہے اس جماعت کے سربراہ زکریا صاحب نے کہ احمد رفاعی صاحب نے (جو صوفی اور اتحادی تھے) ۵۵۵ھ میں قبر نبوی پر پہنچ کر شعر کہے کہ:
اس سے پہلے میں اپنی روح کو بھیجا کرتا تھا وہ آپ کی قدم بوسی کرتی تھی
اب میں خود آیا ہوں۔تواپنا ہاتھ نکالیے تاکہ میں بوسہ دوں
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ باہر نکلا اور انہوں نے بوسہ دیا۔شیخ الحدیث زکریا صاحب نے لکھا کہ یہ منظر نوے ہزار آدمیوں نے دیکھا۔دوسرا واقعہ لکھتے ہیں کہ ایک نوجوان اپنی ماں کو لے کر حج کے لیے گیا۔وہاں اس کی ماں مر گئی،اس کا چہرہ سیاہ ہو گیا اور پیٹ پھول گیا۔تب اس نے دعا کی تو دیکھا کہ تہامہ (حجاز) کی طرف سے ایک بادل آیا۔اس سے ایک آدمی ظاہر ہوا۔اس نے اپنا ہاتھ اس کی ماں کے چہرے پر پھیرا تو وہ روشن ہو گیا اور پھر پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو وہ برابر ہو گیا۔تب اس نوجوان کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ میں تمہارا نبی محمد ہوں اور پھر اس کو وصیت کی۔یہ اور اسی طرح کے کتنے واقعات ہیں جن سے زکریا صاحب کی کتب بھری پڑی ہیں۔دیکھئے فضائل حج،فضائل درود،فضائل صدقات ۔ان واقعات کی روشنی میں آپ خود اندازہ لگائیں کہ ان میں اور بریلویوں میں کیا فرق رہ گیا ہے اور پھر ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ اﷲتعالیٰ سورۃ النساء (۱۰۳) میں فرماتا ہے کہ:
ان الصلوۃ کانت علی المو منین کتبا موقوتا
’’بے شک نماز مقررہ وقت میں صرف مومنوں پر فرض کی گئی ہے۔‘‘
جس کا ایمان درست نہیں وہ مومن نہیں اور ایسے لوگوں پر مالک نے کچھ بھی فرض نہیں کیا۔ایسے لوگوں کے متعلق قرآن میں فرما دیا گیا ہے کہ یہ عبادتیں کر کر کے تھکے ہوئے ہوں گے جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے۔ ان کے اعمال روئی کے گالوں کی طرح اڑا دئیے جائیں گے۔ اور ابوداؤد کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایسے لوگوں کے نماز، روزے، حج، زکوۃ، خیرات سب کچھ منہ پر ما ردیا جائے گا۔
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہم مانگتے تو اﷲ ہی سے ہیں مگر نیک لوگ ہماری دعاؤں کا سہارا بنتے ہیں وہ ہماری دعاؤں کو اﷲ تک پہنچا تے اور ان کو قبول کرواتے ہیں۔حقیقت کیا ہے؟
الجواب:
یہی عقیدہ تو پروردگار فرماتا ہے کہ ابو جہل اور سارے مشرکین عرب کا تھا۔قرآن بیان کرتا ہے
کہ یہ ظالم اﷲ کے علاوہ دوسروں کی بندگی کرتے ،ان کی پکاریں لگاتے اور ان کے نام کی نذرونیاز کرتے ہیں،حالانکہ وہ نہ تو ان کو کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ نفع ہی دے سکتے ہیں چنانچہ اگر کوئی ٹوکے کہ اﷲ کو چھوڑ کر کس کی عبادت میں لگے ہوئے ہو تو فوراً کہتے ہیں کہ نہیں،ہم ان کو اﷲ تو نہیں مانتے لیکن ھوء لاء شفعاؤنا عنداﷲ، ان کا بڑا اثر ہے،بہت پیارے ہیں یہ اﷲ کے،محبوب سبحانی ہیں،یہ اﷲ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں مالک فرماتا ہے:قل اتنبؤ ن اﷲ بما لا یعلم فی السموت ولا فی الارض میں نے آسمان بنائے،زمین بنائی اور میں ہر چیز کا جاننے والا ہوں،اب تم نے مجھے کمزور اور معذور سمجھ کر میرے ایسے ایجنٹ اور شریک کار بنا لیے ہیں جن سے میں بھی بے خبر ہوں اور تم مجھے بتاتے ہو کہ ان کے بغیر تمہاری بات مجھ تک نہیں پہنچ سکتی۔فرمایا: سبحنہ وتعلی عما یشرکون کہ میں تمہارے اس شرک سے پاک ہوں۔اسی طرح سورۃ الزمر (آیت۳)میں اﷲ تعالیٰ اس دور کے مشرکوں کا حال بیان کرتا ہے :
والذین اتخذوا من دونہ اولیاء مانعبد ھم الا لیقربونا الی اﷲ زلفی
’’وہ لوگ جنہوں نے اﷲ کے سوا دوسروں کواپنا کار ساز بنا رکھا ہے جب ان کو اس ظلم کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو وہ اس کی یہی توجہیہ پیش کرتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اﷲ تک ہماری رسائی کرا دیں۔‘‘
تو ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے اور آج بھی یہی ہو رہا ہے کہ اﷲ کو براہ راست نہیں بلکہ اس کی کسی مخلوق کے واسطے اور وسیلے سے پکارو۔یہ نہیں ہوتا کہ اﷲ کو اس کی رحمت کا واسطہ دے کر پکارا جائے کہ پروردگار تو خطاؤں کو معاف کرنے والا ہے،اپنی رحمت سے نواز دے۔اس کی بجائے اﷲ کے کسی بندے کو لایا جاتا ہے یہاں تک کہ اﷲ کے رسول کے صدقے اور ان کے واسطے سے دعائیں مانگی جاتی ہیں،پھر یہ سلسلہ ان کے نام نہاد اولیا ء تک آتا ہے۔بتایئے کس قدر ظلم ہے اﷲ کے آخری نبی پر کہ جنہوں نے زندگی بھر شرک کے خلاف جنگ کی ہے،ان کو اس طرح اﷲ کے ساتھ شریک ٹھہرایا جائے۔اب اگر آج کے کلمہ گو ،نمازیں پڑھنے والے امام اور مقتدی بھی وہی کچھ کہتے اور کرتے ہیں جو قرآن کے بیان کے مطابق چودہ سو برس پہلے مشرکین عرب کہتے تھے تو پھر آپ خود ہی فیصلہ کیجیے کہ اس کو کیا کہا جائے۔اﷲ نے تو فرما دیا کہ میں پاک ہوں تمہارے اس شرک سے۔