چند الفاظ میں اس جماعت کا تعارف اور مقصد تشکیل تو وہی ہے جو مقصد تخلیق انسان ہے یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا ۔ اس کو فراموش کرکے تو انسان ر اہ راست سے بھٹک جاتااور خسارے کے گڑھے میں گرجاتا ہے ۔ اس خسارے سے بچنے کے لیے سورۃ العصر میں چار جامع اُصول بیان کیے گئے اور اُن کو سورۂ لقمان میں کچھ دوسرے انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنےآپ کو شرک سے پاک کرلینا ، عمل صالح کرنا، اور دین حق کی لوگوں کو تلقین ، اور اس راہ میں آنے والی آزمائشوں پر صبر کرنا ۔ سورہ حمٰ السجد ہ میں دعوت الی اللہ کو سب سے بہتر بات کہا گیا اور یہ بتایا گیا کہ یہ ذمّے داری پوری کرنے والا خود مسلم ہوتا ہے اور عمل کا پیکر ۔صحیح معنوں میں اس کے مصداق تو صحابہ کرام ہی تھے ، پھر اُن کے تابعین اور خیر القرون کے صالحین جنہوں نے دینِ اسلام کو پورے شعور کے ساتھ سمجھ کر قبول اور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھال لیا۔
دراصل لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہ وہ انقلابی کلمہ ہے جس کا اقرار کرنے والے اخلاق وکردار کی پستیوں سے اُٹھ کر بلندیوں تک پہنچے یہا ں تک کہ خلافت ارضی کے منصب پر فائز کیے گئے اورعرب وعجم کو اُن کا تا بع فرمان بنادیا گیا ۔انہوں نے نہ صرف زبان سے اس کلمے کا اقرار کیا تھا بلکہ صدقِ دل سے اس کو تسلیم کرکے اپنے ایمان وعمل سے اس کا ثبوت فراہم کردیا تھا۔ کلمے کے پہلے جزو کا تقاضہ پورا کرتے ہوئے اپنے ایمان کو شرک کی آلودگی سے یکسر پاک کرلیا ، اللہ تعالیٰ کو اپنا اکیلا معبود تسلیم کرکے صرف اور صرف اُسی کو خالق ومالک، مختار کل، عالم الغیب ، نافع وضار اور مشکل کشا وحاجت روا مانا اور اُسی کوہر قسم کی قولی، مالی و بدنی عبادات کا مستحق ٹھہرایا ، پھر مشکل ومصیبت میں حاجت روائی کے لیے براہ راست اُسی کو پکارا اور اس بات پر یقین رکھا کہ وہ بغیر واسطے اور وسیلے کے دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے والا ہے ۔انہوں نے کسی بھی نبی یا ولی کے اللہ کی ذات وصفات اور علم واختیار میں شریک ہونے کا قطعاً انکار کردیا ، بلکہ سب کو اس کی بے بس مخلوق اور اس کا محتاج قرار دیا ۔ نیز واسطے ، وسیلے اور غیر اللہ کی شکر گزاری اور نذرونیاز کو شرک مانا اور اس سے مکمل اجتناب اور اظہار برأت کیا۔
کلمے کے دوسرے جزوکا اقرار کرکے انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرماں برداری کو اللہ ہی کی اطاعت سمجھتے ہوئے اسے ایمان کا لازمی تقاضہ سمجھا ، اور پوری زندگی میں ، خواہ امن ہو یا حالت جنگ، اس کا عملی ثبوت پیش کیا ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کوحرف آخر سمجھا ، اور اس کے مقابلے میں دوسروں کی بات کو قابل ردّ جانا۔ راہِ حق سے بھٹکانے والے باطل پرست اکابرین کو طاغوت قرار دے کر اُن کا کفر کیا اور اُن سے مکمل اجتناب کو ایمان باللہ کے لیے لازم قرار دیا ۔ ایک طرف تو قرآن کی تعلیمات اُن کے ایمان کی پختگی کا سبب تھیں تو دوسری طرف راست گوئی ، راست روی اور عدل وانصاف پر مشتمل کتاب اللہ کی آیات اور اُن کے احکامات اُن کی انفرادی واجتماعی اور معاشرتی زندگی کے لیے رہنما اُصول فراہم کرتے تھے ۔ انہوں نے ان سے پورا فائدہ اُٹھا یا ، اپنا تزکیہ نفس کیا اور پوری طرح ان احکامات کو اپنی زندگیوں میں نافذ کیا اور اپنے ربّ کی عائد کردہ حدود کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیا ۔ اس طرح اس انقلابی کلمے کو مان کر ایسے صاف اور کھرے ایمان وعقائد اور پاکیزہ اخلاق وکردار کی حامل قوم کو اللہ نے تیارکیا جس کا آخرت کی جوابدہی پر پورا یقین تھا، اور وہ اپنے ربّ کی رضا کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اشارے پر جان ومال قربان کردینے کو ہی کا میابی تصور کرتے تھے، چنانچہ میدان قتال میں کم تعداد اور وسائل کے باوجود محض اللہ پر توکل کرتے ہوئے کئی گنے لشکر کفار کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار بن کر صف آرا ہوجاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خلافت ارضی کے لیے منتخب فرمایا ، اور انہوں نے اپنے آپ کو اس منصب کااہل ثابت کردکھایا ۔
تاریخ شاہد ہے کہ اصلاح احوال کے لیے اللہ کے دین کی دعوت دینے اور دین حق کو اللہ کی زمین پر نافذ کرنے کا عزم رکھنے والے صحیح معنوں ایسے ہی ایمان اور انہی اوصاف کے حامل ہوتے رہے ہیں آج بھی ایسے ہی افراد پر مشتمل جماعت اس کام کو چلانے اور جاری رکھنے کے لیے مطلوب ہے ۔ اسی کلیدی اُصول
کو مدنظر رکھتے ہوئے اس اجتماعیت کی تشکیل کی گئی ہے ۔ الٰھکم الہ واحد کی پکار پر لبیک کہنے والوں کے قلب وذہن میں لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رّسول اللّٰہ کا مفہوم راسخ کیا جاتا ہے ، کتاب اللہ کی آیا ت کے ذریعے اُن کی تربیت اور تزکیۂ نفس کا اہتمام کیا جاتاہے ، کتاب اللہ کے احکامات کا انہیں پابند بنایا جاتا ہے، اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا والہانہ ذوق وشوق ان کے لیے پیدا کیا جاتا ہے ۔ پھر زبان وقلم سے اس پیغام حق کو لوگوں تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیا جاتا ہے۔ اس بات کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کام کرنے والے داعیانِ حق اوردیگرساتھی اپنے عمل سے اس کی اہلیت ثابت کرتے رہیں، ان کی زندگی کا ایک ایک گوشہ اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلمکے رنگ میں رنگا ہوا ہو ۔ وہ اپنا محاسبہ کرتے رہیں اور قرآن وسنت کی روشنی میں خامیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کرتے رہیں وہ نہ تو اللہ کے باغی نام نہاد وعلماء سے مرعوبیت کا شکار ہوں اور نہ ہی حیا وغیرت سے عاری مغربیت زدہ ’’ ترقی پسند ‘‘ معاشرے کی جگمگاہٹ کو قابل التفات سمجھیں، بلکہ ایمان وتقویٰ کی اسلامی قدروں کے محافظ بنے ہوئے خیر القرون کے نقوش راہ پر قدم جمائے چلتے رہنے ہی کو منزل مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھیں ۔ تو یہ ہے اس جماعت کا مختصر تعارف اور اس کی تشکیل کے مقصداور طریقۂ کا ر کا خلاصہ ۔
دراصل لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہ وہ انقلابی کلمہ ہے جس کا اقرار کرنے والے اخلاق وکردار کی پستیوں سے اُٹھ کر بلندیوں تک پہنچے یہا ں تک کہ خلافت ارضی کے منصب پر فائز کیے گئے اورعرب وعجم کو اُن کا تا بع فرمان بنادیا گیا ۔انہوں نے نہ صرف زبان سے اس کلمے کا اقرار کیا تھا بلکہ صدقِ دل سے اس کو تسلیم کرکے اپنے ایمان وعمل سے اس کا ثبوت فراہم کردیا تھا۔ کلمے کے پہلے جزو کا تقاضہ پورا کرتے ہوئے اپنے ایمان کو شرک کی آلودگی سے یکسر پاک کرلیا ، اللہ تعالیٰ کو اپنا اکیلا معبود تسلیم کرکے صرف اور صرف اُسی کو خالق ومالک، مختار کل، عالم الغیب ، نافع وضار اور مشکل کشا وحاجت روا مانا اور اُسی کوہر قسم کی قولی، مالی و بدنی عبادات کا مستحق ٹھہرایا ، پھر مشکل ومصیبت میں حاجت روائی کے لیے براہ راست اُسی کو پکارا اور اس بات پر یقین رکھا کہ وہ بغیر واسطے اور وسیلے کے دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے والا ہے ۔انہوں نے کسی بھی نبی یا ولی کے اللہ کی ذات وصفات اور علم واختیار میں شریک ہونے کا قطعاً انکار کردیا ، بلکہ سب کو اس کی بے بس مخلوق اور اس کا محتاج قرار دیا ۔ نیز واسطے ، وسیلے اور غیر اللہ کی شکر گزاری اور نذرونیاز کو شرک مانا اور اس سے مکمل اجتناب اور اظہار برأت کیا۔
کلمے کے دوسرے جزوکا اقرار کرکے انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرماں برداری کو اللہ ہی کی اطاعت سمجھتے ہوئے اسے ایمان کا لازمی تقاضہ سمجھا ، اور پوری زندگی میں ، خواہ امن ہو یا حالت جنگ، اس کا عملی ثبوت پیش کیا ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کوحرف آخر سمجھا ، اور اس کے مقابلے میں دوسروں کی بات کو قابل ردّ جانا۔ راہِ حق سے بھٹکانے والے باطل پرست اکابرین کو طاغوت قرار دے کر اُن کا کفر کیا اور اُن سے مکمل اجتناب کو ایمان باللہ کے لیے لازم قرار دیا ۔ ایک طرف تو قرآن کی تعلیمات اُن کے ایمان کی پختگی کا سبب تھیں تو دوسری طرف راست گوئی ، راست روی اور عدل وانصاف پر مشتمل کتاب اللہ کی آیات اور اُن کے احکامات اُن کی انفرادی واجتماعی اور معاشرتی زندگی کے لیے رہنما اُصول فراہم کرتے تھے ۔ انہوں نے ان سے پورا فائدہ اُٹھا یا ، اپنا تزکیہ نفس کیا اور پوری طرح ان احکامات کو اپنی زندگیوں میں نافذ کیا اور اپنے ربّ کی عائد کردہ حدود کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیا ۔ اس طرح اس انقلابی کلمے کو مان کر ایسے صاف اور کھرے ایمان وعقائد اور پاکیزہ اخلاق وکردار کی حامل قوم کو اللہ نے تیارکیا جس کا آخرت کی جوابدہی پر پورا یقین تھا، اور وہ اپنے ربّ کی رضا کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اشارے پر جان ومال قربان کردینے کو ہی کا میابی تصور کرتے تھے، چنانچہ میدان قتال میں کم تعداد اور وسائل کے باوجود محض اللہ پر توکل کرتے ہوئے کئی گنے لشکر کفار کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار بن کر صف آرا ہوجاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خلافت ارضی کے لیے منتخب فرمایا ، اور انہوں نے اپنے آپ کو اس منصب کااہل ثابت کردکھایا ۔
تاریخ شاہد ہے کہ اصلاح احوال کے لیے اللہ کے دین کی دعوت دینے اور دین حق کو اللہ کی زمین پر نافذ کرنے کا عزم رکھنے والے صحیح معنوں ایسے ہی ایمان اور انہی اوصاف کے حامل ہوتے رہے ہیں آج بھی ایسے ہی افراد پر مشتمل جماعت اس کام کو چلانے اور جاری رکھنے کے لیے مطلوب ہے ۔ اسی کلیدی اُصول
کو مدنظر رکھتے ہوئے اس اجتماعیت کی تشکیل کی گئی ہے ۔ الٰھکم الہ واحد کی پکار پر لبیک کہنے والوں کے قلب وذہن میں لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رّسول اللّٰہ کا مفہوم راسخ کیا جاتا ہے ، کتاب اللہ کی آیا ت کے ذریعے اُن کی تربیت اور تزکیۂ نفس کا اہتمام کیا جاتاہے ، کتاب اللہ کے احکامات کا انہیں پابند بنایا جاتا ہے، اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا والہانہ ذوق وشوق ان کے لیے پیدا کیا جاتا ہے ۔ پھر زبان وقلم سے اس پیغام حق کو لوگوں تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیا جاتا ہے۔ اس بات کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کام کرنے والے داعیانِ حق اوردیگرساتھی اپنے عمل سے اس کی اہلیت ثابت کرتے رہیں، ان کی زندگی کا ایک ایک گوشہ اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلمکے رنگ میں رنگا ہوا ہو ۔ وہ اپنا محاسبہ کرتے رہیں اور قرآن وسنت کی روشنی میں خامیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کرتے رہیں وہ نہ تو اللہ کے باغی نام نہاد وعلماء سے مرعوبیت کا شکار ہوں اور نہ ہی حیا وغیرت سے عاری مغربیت زدہ ’’ ترقی پسند ‘‘ معاشرے کی جگمگاہٹ کو قابل التفات سمجھیں، بلکہ ایمان وتقویٰ کی اسلامی قدروں کے محافظ بنے ہوئے خیر القرون کے نقوش راہ پر قدم جمائے چلتے رہنے ہی کو منزل مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھیں ۔ تو یہ ہے اس جماعت کا مختصر تعارف اور اس کی تشکیل کے مقصداور طریقۂ کا ر کا خلاصہ ۔